یہ نرم ہاتھ مِرے ہاتھ میں تھما دیجے
تھکا ہوا ہوں ذرا دل کو حوصلہ دیجے
بس اب ملے ہیں تو کیجے نہ آس پاس کا خوف
جو سنگِ راہ ملے پاؤں سے ہٹا دیجے
یہ اور دور ہے اور سب یہاں مجھی سے ہیں
وہ کوہ کن کی حکایات اب بھُلا دیجے
نہیں ہے آپ کو فرصت اگر توجہ کی
تو میں بھی لوٹتا ہوں گھر کو ٭آگیا دیجے
وفا ہے جرم تو اقرارِ جرم ہے مجھ کو
یہ میں ہوں یہ مِرا دل لیجئے سزا دیجے
مِرا وجود بھی ہے آپ کی جبیں کا داغ
اسے بھی حرفِ غلط کی طرح مٹا دیجے
کل آپ نے جو چھڑایا تو چھٹ سکے گا نا ہات
جو الجھنیں ہیں مجھے آج ہی بتا دیجے
یہ کھیل کھیلا ہے جب پیار کا تو پھر اے دل
اب اپنے آپ کو بھی داؤں پر لگا دیجے
تمام عمر بھٹکتی رہی نظر کہ کہیں
ملے کوئی جسے نذرانۂ وفا دیجے
مِری تو جنبشِ لب بھی ہے ناخوشی کا سبب
اب آپ ہی کوئی طرزِ بیاں سِکھا دیجے
وہ سہمے سہمے جدائی کے مضطرب لمحے
مِری نگاہ میں اک بار پھر بسا دیجے
گیا نہیں ہے ابھی دور آپ کا انجم
جو دل اداس ہو تو پھر اسے صدا دیجے
انوار انجم
٭آگیا (ہندی) اجازت
No comments:
Post a Comment