مر ہی جاؤں جو مِلے موت قرینے والی
زندگی تو مجھے لگتی نہیں جینے والی
حضرتِ شیخ نے پابند کیا ہے، ورنہ
ایک ہی چیز مجھے لگتی ہے پینے والی
یہ مِرے سارے گھرانے کے لیے کافی ہے
یہ کمائی ہے مِرے خون پسینے والی
جس کسی نے بھی سنائی ہے ادھوری ہی سنائی
اک کہانی کسی مدفون خزینے والی
ہو میسر جو کبھی جون میں بھی لمس تِرا
ٹھنڈ پڑتی ہے دسمبر کے مہینے والی
ان کو آتی ہے سحر صرف گریبان دری
انگلیاں کب ہیں مِری چاک کو سینے والی
وقار سحر
No comments:
Post a Comment