دنیا سمجھ رہی ہے کہ پتھر اچھال آئے
ہم اپنی پیاس جا کے سمندر میں ڈال آئے
جو پھانس چبھ رہی ہے دلوں میں وہ تو نکال
جو پاؤں میں چبھی تھی اسے ہم نکال آئے
کچھ اس طرح سے ذکر تباہی سنائیے
آنکھوں میں خون آئے نہ شیشے میں بال آئے
سمجھو کہ زندگی کی وہیں شام ہو گئی
کردار بیچنے کا جہاں بھی سوال آئے
گزرو دیار فکر سے منصور اس طرح
خود پر زوال آئے نہ فن پر زوال آئے
منصور عثمانی
No comments:
Post a Comment