Tuesday 23 February 2021

دنیا سمجھ رہی ہے کہ پتھر اچھال آئے

 دنیا سمجھ رہی ہے کہ پتھر اچھال آئے

ہم اپنی پیاس جا کے سمندر میں ڈال آئے

جو پھانس چبھ رہی ہے دلوں میں وہ تو نکال

جو پاؤں میں چبھی تھی اسے ہم نکال آئے

کچھ اس طرح سے ذکر تباہی سنائیے

آنکھوں میں خون آئے نہ شیشے میں بال آئے

سمجھو کہ زندگی کی وہیں شام ہو گئی

کردار بیچنے کا جہاں بھی سوال آئے

گزرو دیار فکر سے منصور اس طرح

خود پر زوال آئے نہ فن پر زوال آئے


منصور عثمانی

No comments:

Post a Comment