آئینے میں خود اپنا چہرا ہے
پھر بھی کیوں اجنبی سا لگتا ہے
جس پہ انسانیت کو ناز تھا کل
اب وہ سب سے بڑا درندہ ہے
فکر بھی ہے عجیب سا جنگل
جس کا موسم بدلتا رہتا ہے
کیسے اپنی گرفت میں آئے
آگہی اک بسیط دریا ہے
اس میں ظلمت پنپ نہیں سکتی
ذہن سورج کی تاب رکھتا ہے
وہ سمجھتا ہے آئینے کی بساط
جس نے پتھر کبھی تراشا ہے
کیا ہماری وفا شعاری سے
ہر جگہ انتشار برپا ہے
ظہیر غازی پوری
No comments:
Post a Comment