جستجو نے تِری ہر چند تھکا رکھا ہے
پھر بھی کیا غم کہ اسی میں تو مزا رکھا ہے
کچھ تو اپنی بھی طبیعت ہے گریزاں ان سے
کچھ مزاج ان کا بھی بر دوش ہوا رکھا ہے
کیا تجھے علم نہیں تیری رضا کی خاطر
میں نے کس کس کو زمانے میں خفا رکھا ہے
جب نظر اٹھی رخ یار پہ جا کر ٹھہری
جیسے آنکھوں میں کوئی قبلہ نما رکھا ہے
کون ہوں کیا ہوں کہاں ہوں مجھے معلوم نہیں
زندگی تو نے یہ کس موڑ پہ لا رکھا ہے
نام کا عکس بھی آئینۂ کردار میں رکھ
نام اخلاق سہی نام میں کیا رکھا ہے
اخلاق بندوی
No comments:
Post a Comment