حادثوں کے ریلے ہیں، مشکلوں کے میلے ہیں
ہم نے چند ہی دن میں کیا عذاب جھیلے ہیں
زندگی کے طوفاں میں کون ساتھ دیتا تھا
جب بھی ہم اکیلے تھے، اب بھی ہم اکیلے ہیں
آج کل تو ہے اعجاز، راستے بھی کٹ جانا
ہر قدم رکاوٹ ہے، ہر قدم جھمیلے ہیں
الجھنوں کے ریلے سے ہم ابھی تو ابھرے ہیں
دیکھتے ہیں پھر آگے الجھنوں کے ریلے ہیں
رزمِ زندگانی کی جاں گدازیاں فطرت
ہم سے پوچھئے، ہم نے سارے کھیل کھیلے ہیں
عبدالعزیز فطرت
No comments:
Post a Comment