Monday, 1 March 2021

آئینے سے اثر لیا گیا ہے

آئینے سے اثر لیا گیا ہے

خود کو تسلیم کر لیا گیا ہے

رزق اترے گا آسمانوں سے

کھیت پانی سے بھر لیا گیا ہے

کوئی آواز بھی نہیں آتی

کس خرابے میں گھر لیا گیا ہے

سُن رہا تھا کوئی ہماری بات

در کو دیوار کر لیا گیا ہے

نقش کرنا تھا خود کو کاغذ پر

رنگِ امکان بھر لیا گیا ہے

کون نیزے پہ بولتا ہے قیس

دشت سے کس کا سر لیا گیا ہے


ندیم قیس

No comments:

Post a Comment