آئینے سے اثر لیا گیا ہے
خود کو تسلیم کر لیا گیا ہے
رزق اترے گا آسمانوں سے
کھیت پانی سے بھر لیا گیا ہے
کوئی آواز بھی نہیں آتی
کس خرابے میں گھر لیا گیا ہے
سُن رہا تھا کوئی ہماری بات
در کو دیوار کر لیا گیا ہے
نقش کرنا تھا خود کو کاغذ پر
رنگِ امکان بھر لیا گیا ہے
کون نیزے پہ بولتا ہے قیس
دشت سے کس کا سر لیا گیا ہے
ندیم قیس
No comments:
Post a Comment