بھری محفل میں رُسوا ہو گئے تھے
ہمی گھر گھر کا چرچا ہو گئے تھے
یہ کس نے پیٹھ پر خنجر چلایا
سبھی دُشمن تو پسپا ہو گئے تھے
کسی موجِ صبا کے منتظر تھے
چمن کے پھول تنہا ہو گئے تھے
وہ کس ہستی کے لب کی جنبشوں سے
کبھی پتھر بھی گویا ہو گئے تھے
عمارت جوں کی توں لگتی تھی لیکن
در و دیوار مُردہ ہو گئے تھے
تِری ان جھیل سی آنکھوں کے اندر
سمندر تھے جو صحرا ہو گئے تھے
فیضان قادر
No comments:
Post a Comment