خود ستائی سے نہ ہم باز انا سے آئے
گو ترے شہر میں جا کر کے بھی پیاسے آئے
اس جوانی میں بھی الزام سے ڈرنا حیرت
کون چہرے پہ نہیں کیل مہاسے آئے
اس نے اک خاص تناسب سے محبت بانٹی
میرے حصے میں ہمیشہ ہی دِلاسے آئے
بات اوصاف کی ہے نم کی نہیں ہے بھائی
لوگ بے انت سمندر سے بھی پیاسے آئے
ڈھونڈھتا ہے کوئی مجھ جیسا مجھے گرد و نواح
اک صدا میرے تعاقب میں سدا سے آئے
میں بصد شوق گرفتارِ رہِ عشق ہوا
ورنہ کچھ لوگ یہاں اپنی خطا سے آئے
صرف تقلید سے ہی قیس نہیں بن سکتے
یعنی اس عشق کا کرنا بھی عطا سے آئے
آزاد حسین آزاد
No comments:
Post a Comment