Thursday, 24 June 2021

خود ستائی سے نہ ہم باز انا سے آئے

 خود ستائی سے نہ ہم باز انا سے آئے

گو ترے شہر میں جا کر کے بھی پیاسے آئے

اس جوانی میں بھی الزام سے ڈرنا حیرت

کون چہرے پہ نہیں کیل مہاسے آئے

اس نے اک خاص تناسب سے محبت بانٹی

میرے حصے میں ہمیشہ ہی دِلاسے آئے

بات اوصاف کی ہے نم کی نہیں ہے بھائی

لوگ بے انت سمندر سے بھی پیاسے آئے

ڈھونڈھتا ہے کوئی مجھ جیسا مجھے گرد و نواح

اک صدا میرے تعاقب میں سدا سے آئے

میں بصد شوق گرفتارِ رہِ عشق ہوا

ورنہ کچھ لوگ یہاں اپنی خطا سے آئے

صرف تقلید سے ہی قیس نہیں بن سکتے

یعنی اس عشق کا کرنا بھی عطا سے آئے


آزاد حسین آزاد

No comments:

Post a Comment