دو آویزاں جسم
میں نے اس خون کو دیکھا
جو میرے جسم میں رواں
اور آپ کے سارے بدن پر بکھرا تھا
میں نے ان ہاتھوں کو دیکھا
جو مجھے مضبوطی سے
تھام لیا کرتے تھے
میں نے جو تحفے میں بھیجا تھا
وہ لباس آپ کا کفن بنتے دیکھا
میں نے وہ پیسے دیکھے
جو (تذلیل کی خاطر)
آپ کی ناک پر رکھے گئے
اس لیے کہ
آپ نے کبھی کوئی صندوق ہی نہیں رکھا
میں نے آپ کے ہاتھ میں سگریٹ دیکھے
جو آپ کبھی نہیں پیتے تھے
میں نے آپ کے پھٹے کپڑے
اور ٹکڑے ٹکڑے جسم دیکھا
میں نے لُنگی والے لوگوں کو خوش دیکھا
میں نے انہیں ہنستے ہوئے ایک دوسرے سے
اس لیے بغلگیر ہوتے دیکھا کہ
دو بھائی کیسے سنگ سنگ لٹکائے گئے
آپ کی آدھی کھوپڑی اُڑا دی گئی تھی
اور سارا جسم زخموں سے چور چور تھا
دنیا سب کچھ دیکھ رہی تھی
اور میں نے خود کو انتہائی بے بس
مظلوم اور تنہا محسوس کیا
لیکن پھر میرا سر فخر سے بلند ہو گیا
اس لیے کہ
میں نے خود میں وہ شکتی پیدا کی
جو مجھے ہر ظلم اور ناانصافی کے مقابل
کھڑا کر دیتی ہے
میں نے دیکھا کہ وہ آپ کو
اپنی طرح آلودہ کرنا چاہتے ہیں
لیکن میں نے آپ کو
اپنے حقیقی رنگ میں پایا
میں نے وہ دو جسم آویزاں دیکھے
جنہوں نے تاریخ رقم کی
میں نے ان بہادروں کو دیکھا
جو اپنے مؤقف پر ڈٹے رہے
میں نے ان دلاوروں کو دیکھا
جو گوشت پوست کے بنے تھے
لیکن مرتے دم تک سینہ سِپر رہے
میں نے ان سرفروشوں کو دیکھا
جنہوں نے شکست تسلیم نہیں کی
میں نے ان بہادروں کو دیکھا
جو ایک دوسرے کو عزیز رکھتے تھے
اور جو آخر دم تک ساتھ رہے
میں نے ان دلاوروں کو دیکھا
جو امن، اتحاد، عوام
اور افغانستان کے لیے قربان ہوئے
میں نے ان سر فروشوں کو
اس حال میں دیکھا
جیسے وہ تخلیق ہوئے تھے
شاعری؛ ہیلہ نجیب اللہ
اردو ترجمہ؛ مشتاق علی شان
No comments:
Post a Comment