مِرے شیریں سخنو
لے کو مدھم نہ کرو
مِرے شیریں سخنو
ہر ایک گام سگانِ غنیم کا غوغا
ہر ایک بام پہ آسیب قہر کا پرتو
ہر ایک موڑ شبِ ظلم کے قصیدہ گو
محافظانِ ستم ہائے ناروا ہر رخ
ہر ایک سمت امڈتے سپاہیانِ عدو
حلیفِ تیرہ شبی جہل و جبر کے بازو
ابھی چراغوں کے سر پر ہے امتحاں باقی
ابھی تو وحشتِ صرصر نے کم نہیں ہونا
ابھی تو ختم عذابِ ستم نہیں ہونا
اس ایک صبح غنیمت تلاش کرنے کو
نکل پڑے ہیں رفیقانِ فکر تابندہ
کہاں کہاں نہ لٹا قافلہ محبت کا
کہاں کہاں سے نہ پھوٹا ہے خوابِ آئندہ
یہ لمحہ لمحہ شہادت بنے گی صبحِ ازل
رقم رقم ہے مثالِ دلاوری ہر دم
سو چیرتے رہو شب کا عذاب سناٹا
سو بانٹتے رہو اپنی نواگری ہر دم
لے کو مدھم نہ کرو
مِرے شیریں سخنو
حماد حسن
No comments:
Post a Comment