گزرے گزر رہی تھی اگرچہ گزر گئی
وہ زندگی بھی کیا تھی کہ لمحے میں مر گئی
یہ بات تھی کہ بعد رفاقت اسے کہیں
دیکھا بھی اک نظر تھا کہ بس آنکھ بھر گئی
مایوسیوں نے راہ کا رستہ بھلا دیا
منزل جو تھی میری وہ حدوں میں اتر گئی
اس کو میری وفا نے متاثر نہیں کیا
ہر بات اس کے سامنے بس بے اثر گئی
کاغذ کہیں پڑا ہے کہیں پر قلم غدیر
فرقت تمہاری یوں مجھے پامال کر گئی
غازل غدیر
No comments:
Post a Comment