Tuesday, 1 February 2022

گزرے گزر رہی تھی اگرچہ گزر گئی

 گزرے گزر رہی تھی اگرچہ گزر گئی

وہ زندگی بھی کیا تھی کہ لمحے میں مر گئی

یہ بات تھی کہ بعد رفاقت اسے کہیں

دیکھا بھی اک نظر تھا کہ بس آنکھ بھر گئی

مایوسیوں نے راہ کا رستہ بھلا دیا

منزل جو تھی میری وہ حدوں میں اتر گئی

اس کو میری وفا نے متاثر نہیں کیا

ہر بات اس کے سامنے بس بے اثر گئی

کاغذ کہیں پڑا ہے کہیں پر قلم غدیر

فرقت تمہاری یوں مجھے پامال کر گئی


غازل غدیر

No comments:

Post a Comment