درد بھی کتنا اچھا تخلیق کار ہے نا
لوگ مجھ سے میرے دکھوں کا سبب پوچھتے ہیں
وہ کہتے ہیں؛ کبھی تم جو مسکاتی ہو تو کسے سوچتی ہو؟
چہرے پر اداسی کے سائے، یہ کس خوف کی رمق ہے؟
ہنسی کا گَلا خود ہی گھونٹ دیتی ہو
تمنا مچل جائے تو چپ کا لبادہ اوڑھتی ہو
کس طلب کے کرنے سے ڈرتی ہو
ان سوالوں کی گردان روح پر تھکن طاری کرتی ہے
جی میں آتا ہے خوب چیخوں
بند ہوتی آواز کو قرطاس بنا کر تمہارے نام چند لفظ لکھوں
محبت کے داعی بنتے ہو
فلسفہ تمہارا پسندیدہ مضمون ٹھہرا
اور لفظوں کی کمی کبھی تمہارا درد سر رہی نہیں
پھر بھی نجانے کیوں میرے سوالوں پر
تمہاری جانب سدا خامشی ہی رہتی ہے
اس لیے اب دل میں سمٹے غموں کو
تمہارا عکس اوڑھا کر نظم تخلیق کرتی ہوں
میں نت نئے بہانے بنا کر بس تمہیں ہی یاد کرتی ہوں
سنو
ڈار سے بچھڑی کونج کا جب تذکرہ ہوتا ہے
رات کو کوئی پریمی پریم روگ گاتا ہے
کوئی دُکھیاری ماں اپنے بیمار بچے کا بدن ٹٹولتی
جب یہ سوچتی ہے؛
شکر ہے مُنا سویا، کب سے جاگتا تھا
یہ سب میرے اندر دکھوں کی بارش کرتے ہیں
مجھے شب دیر تک سونے نہیں دیتے
میرا نرم بستر مجھ سے سوال کناں رہتا ہے
بس ایک نظم، کیا بس یہی؟
اور ایسے میں تمہارا چلے جانا
مجھ دُکھوں کی ماری کو تمہارا جانا تکلیف نہیں دیتا
بس زرا سا دل میں درد اٹھتا ہے
اور میں دوبارہ قلم تھام لیتی ہوں
درد بھی کتنا اچھا تخلیق کار ہے نا
بشریٰ ایوب خان
No comments:
Post a Comment