Friday, 25 February 2022

میں اس درخت کا بس آخری ہی پتہ تھا

 میں اس درخت کا بس آخری ہی پتہ تھا

جسے ہمیشہ ہوا کے خلاف لڑنا تھا

میں زندگی میں کبھی اس قدر نہ بھٹکا تھا

کہ جب ضمیر مجھے رستہ دکھاتا تھا

مشین بن تو چکا ہوں مگر نہیں بھولا

کہ میرے جسم میں دل بھی کبھی دھڑکتا تھا

وہ بچہ کھو گیا دنیا کی بھیڑ میں کب کا

حسین خوابوں کی جو تتلیاں پکڑتا تھا

پھر اس کے بعد پرندوں پہ جانے کیا گزری

میں ایک پیڑ کی شاخوں کو کاٹ آیا تھا

تمام عمر وہ آیا نہیں زمیں پہ کبھی

ہوا میں اس نے جو سکہ جو کبھی اچھالا تھا

مِرا وجود بھی شامل تھا اس کی مٹی میں

مِرا بھی کھیت کی فصلوں میں کوئی حصہ تھا

نہ جنے کتنی سرنگیں نکل گئیں اس سے

کھڑا پہاڑ بھی تو آنکھ کا ہی دھوکہ تھا

جو بات بات پہ کھاتا رہا خدا کی قسم

قسم خدا کی وہی آدمی تو جھوٹا تھا

پتہ کرو کہ ابھی وہ بڑا ہوا کہ نہیں

بڑے درخت کے نیچے جو ننھا پودا تھا

اس ایک شعر پہ آنکھیں چمک اٹھی اس کی

وہ شعر جس میں کہ روٹی کا ذکر آیا تھا

ہماری زندگی تھی اک تلاش پانی کی

جہاں پہ ریت کا دوج ایک چھنتا دریا تھا


دوجیندر دوج 

دوجیندر دوِّج 

No comments:

Post a Comment