نہ دیوانوں کو سزا اور سُنائی جائے
ان پہ تعزیر محبت کی لگائی جائے
بات کرتا ہے کوئی، پل میں مُکر جاتا ہے
میرے دُشمن کی مجھے نسل بتائی جائے
ٹھیک کرنا جو نہیں، زہر ہی دے ڈالو
کچھ تو بیمار کے اندر بھی دوائی جائے
بس اسی شرط پہ اب پہنوں گا کفن
اس کی تصویر بھی سینے پہ لگائی جائے
وقتِ رُخصت تو میرے یار جی درشن دے کر
میرے دل میں جو لگی آگ بُجھائی جائے
کس لیے شکوہ، جو جانا ہی مقدر ٹھہرا
یوں نہ اب ختم ہوئی بات بڑھائی جائے
ہاں وہی ٹھہرے میری ہستی جلانے والے
ان کی گلیوں میں میری راکھ اُڑائی جائے
ہم نے کاٹی ہے کئی بار ہی جینے کی سزا
غم کی اس بار نئی فصل اُگائی جائے
جیسے عثمان کسی بارات کا ہو دولہا
میری میّت بھی یونہی کاش سجائی جائے
عثمان انیس
No comments:
Post a Comment