Friday 25 February 2022

اپنی طغیانی کا دھارا میری جانب موڑ کر

 اپنی طغیانی کا دھارا میری جانب موڑ کر

درد دل میں آ گیا ساری فصیلیں توڑ کر

رات تیری یاد میری نیند کھانے آٸی تھی

رات میں سویا رہا خود پر اداسی اوڑھ کر

ریل کی سیٹی سناٸی دے رہی تھی بارہا

جانے والا جا چکا تھا مجھ کو تنہا چھوڑ کر

سگرٹیں پیتا رہا کل دیر تک حاشر میاں

رتجگوں کے پتھروں سے اپنی آنکھیں پھوڑ کر


آفاق حاشر

No comments:

Post a Comment