یہ قلب تجھے یاد بھی کرنے نہیں دیتا
اشکوں کے سمندر میں اترنے نہیں دیتا
رہ رہ کے کسک دل کی بھی جینے نہیں دیتی
جینا بھی مجھے چین سے مرنے نہیں دیتا
پھولوں کو کتابوں میں صنم کر کے مقید
خوشبو بھی ہواؤں میں بکھرنے نہیں دیتا
اک خواب جو آنکھوں میں چبھا کرتا ہے مِری
وہ رات بسر چین سےکرنے نہیں دیتا
تنہائی مجھے آج بھی ڈسنے میں مگن ہے
یہ ناگ جدائی کا سدھر نے نہیں دیتا
زنجیر روایات کی پہنا کے حیا کو
دہلیز بھی وہ گھر کی اترنے نہیں دیتا
جس دن سے حیا دل میں وہ ہمراز مکیں ہے
شیشے میں میرا عکس ابھرنے نہیں دیتا
نفیسہ حیا
نفیس سلیم
No comments:
Post a Comment