ہمارے ہاتھ میں اب زہر کا پیالہ ہے
اسی لیے تو ہمیں شہر سے نکالا ہے
حروف ہیں یا کوئی روشنی کا ہالہ ہے
تِرا خیال،۔ میری فکر کا اجالا ہے
اتر گیا ہے رگِ جاں میں جو لہو بن کر
وہ ایک حرفِ محبت مِرا حوالہ ہے
پھر آج دیکھیۓ تزئینِ گلستاں کیلئے
ہرایک گام پہ اپنا لہو اچھالا ہے
فروغِ تشنگئ شوق کیا بیاں کرتے
خیالِ ضبطِ تمنا نے مار ڈالا ہے
ثریا حیا
No comments:
Post a Comment