Friday 25 February 2022

ہمارے ہاتھ میں اب زہر کا پیالہ ہے

 ہمارے ہاتھ میں اب زہر کا پیالہ ہے

اسی لیے تو ہمیں شہر سے نکالا ہے

حروف ہیں یا کوئی روشنی کا ہالہ ہے

تِرا خیال،۔ میری فکر کا اجالا ہے

اتر گیا ہے رگِ جاں میں جو لہو بن کر

وہ ایک حرفِ محبت مِرا حوالہ ہے

پھر آج دیکھیۓ تزئینِ گلستاں کیلئے

ہرایک گام پہ اپنا لہو اچھالا ہے

فروغِ تشنگئ شوق کیا بیاں کرتے

خیالِ ضبطِ تمنا نے مار ڈالا ہے


ثریا حیا

No comments:

Post a Comment