لا مکاں نام ہے اجڑے ہوئے ویرانے کا
ہو کے عالم میں ہے مسکن تِرے دیوانے کا
شوق رسوا کوئی دیکھے تِرے دیوانے کا
خود وہ آغاز بنا ہے کسی افسانے کا
جام دل بادۂ الفت سے بھرا رہتا ہے
واہ کیا ظرف ہے ٹوٹے ہوئے پیمانے کا
داستاں عشق کی ہے پوری سنائیں گے کلیم
قصہ طور تو اک باب ہے افسانے کا
شمع نے بزم میں جل جل کے جلایا آخر
آہ کیا حشر ہوا عشق میں پروانے کا
مستتر قلقل مینا میں ہے راز مستی
بھید کس طرح کھلے پھر ترے مستانے کا
حشر میں دیکھ کے مجمع لب کوثر ساقی
پھر گیا آنکھوں میں نقشہ تِرے میخانے کا
ملتے ہی ساغر و شیشہ سے چھلک جاتا ہے
یہ بھی کیا دور ہے ساقی تِرے پیمانے کا
کیا قیامت ہے کہ محشر میں بھی پرسش نہ ہوئی
حشر اب دیکھیے کیا ہو ترے دیوانے کا
صفحہ دل مِرا آئینۂ رمز توحید
راز کونین خلاصہ مِرے افسانے کا
شوق اب کس لیے فکر مے و میخانہ ہے
بھرنے والا تو کوئی اور ہے پیمانے کا
رینا شوق
پنڈت جگموہن ناتھ
No comments:
Post a Comment