Saturday 26 February 2022

ریشم ریشم تتلی دیکھوں خواب نگر کی وادی میں

 ریشم ریشم تتلی دیکھوں خواب نگر کی وادی میں

کس کی خوشبو پھیل رہی ہے دل کی ویراں بستی میں

ست رنگی سپنوں میں چہرہ ست رنگی ہو جائے ہے

اِندر دھنش کا رنگ ملا ہے تمرے نام کی ہلدی میں

یوں تو بابلی کے پنگھٹ پر سکھیوں کے سنگ بیٹھی ہوں

لیکن من کی گوری چپکے چپکے اترے پانی میں

ہاتھوں کی مہندی جو تمہارے نام کی مالا جپتی ہے

بجلی جیسی دوڑ پڑے ہے نازک نازک انگلی میں

آؤ سانسوں کے پاؤں میں یوں پائل ہم پہنا دیں

میری مانگ کے جگمگ تارے چمکے تمری پگڑی میں

شیشے کے سپنوں کو لے کر پیار کی خاطر آئی ہوں

ہاتھ مِرا تم تھام کے چلنا جیون کی پگڈنڈی میں

رشتوں کے بندھن کو توڑے آج سجن گھر آئی ہوں

لے کر کچھ یادوں کی گویا بچپن کی اک پیٹی میں

ہلکی ہلکی بوندا باندی پھر بھی گلیاروں میں ہے

گیت ملن کا گونج رہا ہے یوں تو من کی وادی میں

انجانی الجھن ہے پھر بھی سکھ کے موسم میں ساگر

جانے جگنو کس کو ڈھونڈے اندھیاروں کی بستی میں


توفیق ساگر

No comments:

Post a Comment