مِری صدا کو کر کے ان سُنی کہیں چلی گئی
وہ آئیں، اور ان کی یاد اٹھی، کہیں چلی گئی
عجب چمک تھی اس کے رخ کو دیکھتے ہی یہ ہوا
ان آنکھوں کی تمام روشنی کہیں چلی گئی
فلک پہ میری دلربا گئی، تو اس کو دیکھ کر
وہاں جو سب سے خوب تھی پری کہیں چلی گئی
اے جیمز بانڈ ڈھونڈھ لا کہ رات میرے پاس سے
ہنسی کہیں چلی گئی، خوشی کہیں چلی گئی
عجیب کشمکش ہے عہدِ نو یہ تیرے سامنے
ہے پاس بے خودی نہیں خودی کہیں چلی گئی
جو ہجر والا پل ہے اس کا ماحصل ہے شاعری
اس ایک پل کے خوف سے صدی کہیں چلی گئی
بلال! تُو بتا کسی نے لوٹ لی یا پھٹ گئی
پتنگ جو تھی عشق کی کٹی، کہیں چلی گئی
بلال صابر
No comments:
Post a Comment