اب اپنی جفا یاد نہ عاشق کی وفا یاد
او بھولنے والے تجھے کچھ بھی نہ رہا یاد
جب دل سے اٹھائے نہ گئے ظلم بتوں کے
آیا اسے فریاد کے پردے میں خدا یاد
آگے تِرے دم بھول گئے چارہ گر ایسا
جینے کی دوا یاد نہ مرنے کی دعا یار
کچھ پاس محبت ہے جو خاموش ہوں اب تک
ایک ایک ستم یاد ہے،۔ ایک ایک جفا یاد
کیا اور کوئی ظلم بھی ہے اس سے زیادہ
مرتے ہوئے عاشق کو بھی تم نے نہ کیا یاد
اس عیش کی تصویر نے سب رنج مٹائے
صورت کو تِری دیکھ کے کچھ بھی نہ رہا یاد
اب سورج ہے ہو جو شکایت ہے جفا کی
اس یاد کے صدقے نہ رہی اپنی جفا یاد
زحمت کش گیسو ہوں تو کیا طرہ ہے مجھ میں
کرتی ہے مجھے اس بتِ کافر کی بلا یاد
جب ٹیس مِرے زخم جگر میں ہوئی افسر
تیرِ نگہِ ناز کی شوخی کو کیا یاد
افسر صدیقی
No comments:
Post a Comment