Saturday, 26 February 2022

اجڑے ہوئے آتے ہیں سدا دل کو راس لوگ

 اجڑے ہوئے آتے ہیں سدا دل کو راس لوگ

دل کو بھلے کیوں لگتے ہیں اتنے اداس لوگ

اندر سے تار تار کوئی دیکھتا انہیں

محفل میں چند آئے تھے جو خوش لباس لوگ

جانے ہوا تھا کس گھڑی باب قبول وا

کہنے کو رات بھر تھے کف التماس لوگ

ہر در نظر آتا ہے مجھے دن میں مقفل

اس درجہ ہو گئے ہیں محیط ہراس لوگ

میں نے تو ان کو اپنا لہو تک پلا دیا

پھر بھی بجھا نہ پائے ہیں اپنی پیاس لوگ

لوگوں کی تشنگی کا تو عالم نہ پوچھیئے

دریا کو دیکھ کر بھی ہو ئے بدحواس لوگ

پھر کیوں نہ بام و در پہ قیامت کا حبس ہو

جانے کدھر چلے گئے پھولوں کی باس لوگ

دیکھا اسے جو آج تو سایہ نہ ساتھ تھا

رہتے تھے ہمہ وقت جس کے آس پاس لوگ

ہر بات اپنی سب کی طبیعت پہ بار تھی

قیصر ملے کہاں ہیں طبیعت شناس لوگ


نعیم قیصر

No comments:

Post a Comment