چہرہ ہے وقت وقت کا چہرہ نما ہوں میں
اپنے سوا سبھی کے لیے آئینہ ہوں میں
اب اس کا کیا علاج، کہ تم ہی نہ سن سکو
اے اہلِ دل! سنو کہ تمہاری صدا ہوں میں
اس حُسنِ اتفاق کے قربان جائیے
آج آئینہ میں خود کو نظر آ گیا ہوں میں
تو مل گیا تو مجھ کو اب اپنی تلاش ہے
پہچان لے مجھے کہ تِرا آشنا ہوں میں
اپنے لہو سے پھول کھلانے کے واسطے
ہر مقتلِ وفا میں پکارا گیا ہوں میں
تحریکِ رونمائیِ صبحِ طرب کی خیر
اے شامِ غم! یہ دیکھ کہاں جل بجھا ہوں میں
مقتل میری نگاہ میں قاتل نظر میں ہیں
صدیوں صلیب و دار پہ فائز رہا ہوں میں
جیسے یہ میری منزل مقصود ہی نہ تھی
ہر اک سے پوچھتا ہوں کہاں آ گیا ہوں میں
خالد علیگ
No comments:
Post a Comment