Thursday 24 February 2022

چہرہ ہے وقت وقت کا چہرہ نما ہوں میں

 چہرہ ہے وقت وقت کا چہرہ نما ہوں میں

اپنے سوا سبھی کے لیے آئینہ ہوں میں

اب اس کا کیا علاج، کہ تم ہی نہ سن سکو

اے اہلِ دل! سنو کہ تمہاری صدا ہوں میں

اس حُسنِ اتفاق کے قربان جائیے

آج آئینہ میں خود کو نظر آ گیا ہوں میں

تو مل گیا تو مجھ کو اب اپنی تلاش ہے

پہچان لے مجھے کہ تِرا آشنا ہوں میں

اپنے لہو سے پھول کھلانے کے واسطے

ہر مقتلِ وفا میں پکارا گیا ہوں میں

تحریکِ رونمائیِ صبحِ طرب کی خیر

اے شامِ غم! یہ دیکھ کہاں جل بجھا ہوں میں

مقتل میری نگاہ میں قاتل نظر میں ہیں

صدیوں صلیب و دار پہ فائز رہا ہوں میں

جیسے یہ میری منزل مقصود ہی نہ تھی

ہر اک سے پوچھتا ہوں کہاں آ گیا ہوں میں


خالد علیگ

No comments:

Post a Comment