اداسی ہم پہ طاری تو تمہارے نام نے کی
مگر اس پر طبیعت پر اذیت شام نے کی
دیے جرأت کریں کیسے اجالے تھامنے کی
ہوا کا سامنا بھی، اور ہوا بھی سامنے کی
اگر میں جنگ کرتا، سلطنت ہی جیتتا بس
دلوں کی جیت ممکن صلح کے پیغام نے کی
کہا کس نے جو سب کو رزق دے بس وہ خدا ہے
پھر اس اک بات کی تائید خاص و عام نے کی
یہ مستی اپنی مستی ہے کوئی بھی مت یہ سمجھے
یہ کیفیت مسلسل جھومنے کی جام نے کی
جو نقادوں پہ لرزہ ہے وہ پختہ کام کا ہے
ہاں طاری کپکپی ان پر کلامِ خام نے کی
اگرچہ حسنِ یوسف انتہا کا منفرد تھا
مگر اس حسن کی شہرت زیادہ دام نے کی
ہمارے گھر نہیں پہنچی جو اک رہ تم نے بھیجی
تلاش اس کی دل و جاں سے بڑی ہر گام نے کی
اگرچہ سحر میں رکھا سبھی کو داستاں نے
مگر پھر بھی کہانی پر اثر انجام نے کی
مظہر الحق
No comments:
Post a Comment