Thursday, 24 February 2022

جگر کو دیکھ کے زخم جگر کو دیکھتے ہیں

 جگر کو دیکھ کے زخمِ جگر کو دیکھتے ہیں

مِرے عزیز، مِرے چارہ گر کو دیکھتے ہیں

پڑی ہے سامنے جیسے کسی عزیز کی لاش

ہم اس نظر سے دلِ بے خبر کو دیکھتے ہیں

کٹیں گی موت کے ہاتھوں یہ بیڑیاں اک دن

اس ایک آس کو اور عمر بھر کو دیکھتے ہیں

گزر رہی ہے اسیرانِ بد نصیب کی یوں

کبھی قفس کو کبھی بال و پر کو دیکھتے ہیں

پھر آ کے حسرتیں دم توڑتی ہیں خواب میں کیا

اداس دل جو ہم اتنا سحر کو دیکھتے ہیں

ستم کشوں کو یہ کیا خوب چُپ کی داد ملی

جب آنکھ کھلتی ہے تربت سے گھر کو دیکھتے ہیں

اجل کو دیکھ کے سُوجھا مآل ہستی کا

سحر کو دیکھ کے شمع سحر کو دیکھتے ہیں

کُھلا ہے اب کے ہے ہستی کا ایک نام گناہ

تباہ حالئ اہلِ ہنر کو دیکھتے ہیں

پہنچ کے منزل ہستی پہ ہوش اڑے بیخود

کہ راہزن تھا جو اب راہبر کو دیکھتے ہیں


بیخود موہانی

No comments:

Post a Comment