دیکھا نہ مِری آنکھ نے اس خواب سے آگے
ہم تم تھے رواں کوچۂ مہتاب سے آگے
سنتا ہوں کہ اس سمت ہیں پریوں کے ٹھکانے
آؤ تمہیں لے جاؤں میں خنجراب سے آگے
ایسی ہے مِرے جِسم کی مٹی کی عقیدت
جانے ہی نہیں دیتی ہے پنجاب سے آگے
درپیش ہیں اس کشتئ جاں کو وہ مصائب
سیلاب نظر آتے ہیں گرداب سے آگے
مٹی کا گھروندہ ہے بشر تیرا ٹھکانہ
خواہش ہے تِری اطلس و کمخواب سے آگے
آتے ہیں ابھی خواب میں مِلنے مجھے قلزم
کچھ رِفتگاں ہیں قریۂ مہتاب سے آگے
سجیل قلزم
No comments:
Post a Comment