بکھر گیا چاہتوں کا وہ سلسلہ تِرے بعد
کہ تیرے جیسا ملا نہیں دوسرا ترے بعد
کسی سے ملتے ہوئے بھی اب میں جھجھک رہا ہوں
رفاقتوں کا رہا نہ کوئی مزا ترے بعد
کچھ اس لیے بھی مصیبتوں میں گھرا ہوا ہوں
نہ دی کسی نے سفر سے پہلے دعا ترے بعد
یہ خالی کمرہ تو دل کی وحشت بڑھا رہا ہے
نہ کوئی آہٹ کہیں نہ کوئی صدا ترے بعد
دیارِ الفت سے بھی تو ناکام لوٹ آیا
نہ راس آئی مجھے یہاں کی فضا ترے بعد
خود اپنے ہی آپ سے ہمیں ہو گئی ہے نفرت
کہ منہ چڑانے لگا ہمیں آئینہ ترے بعد
نہیں ہے آساں محبتوں میں بچھڑ کے جینا
یہ زندگی لگ رہی ہے کوئی سزا ترے بعد
یہ کیسی بارش ہے جس میں تن من جھلس رہا ہے
کہ آگ برسا رہی ہے گویا گھٹا ترے بعد
جمیل احمد جمیل
No comments:
Post a Comment