سنو میں یہ نہیں کہتا میں اچھا ہو نہیں سکتا
میری جاں تم مسیحا ہو تو پھر کیا ہو نہیں سکتا
ہمارے سوچ لینے سے تو ایسا ہو نہیں سکتا
رواں اب قطرے قطرے تو دریا ہو نہیں سکتا
سجا رہتا ہو جس کے گرد تیری یاد کا میلہ
جہاں میں ایک پل کو بھی وہ تنہا ہو نہیں سکتا
تیری تشنہ لبی کے صدقے اب روز قیامت تک
کوئی بھوکا تو ہو سکتا ہے پیاسا ہو نہیں سکتا
ہمارا تجربہ یہ کہہ رہا ہے اے اسد صاحب
کبھی بھی کوئی سوچا کام پورا ہو نہیں سکتا
اسد ہاشمی
No comments:
Post a Comment