Thursday, 24 February 2022

سنو میں یہ نہیں کہتا میں اچھا ہو نہیں سکتا

 سنو میں یہ نہیں کہتا میں اچھا ہو نہیں سکتا

میری جاں تم مسیحا ہو تو پھر کیا ہو نہیں سکتا

ہمارے سوچ لینے سے تو ایسا ہو نہیں سکتا

رواں اب قطرے قطرے تو دریا ہو نہیں سکتا

سجا رہتا ہو جس کے گرد تیری یاد کا میلہ

جہاں میں ایک پل کو بھی وہ تنہا ہو نہیں سکتا

تیری تشنہ لبی کے صدقے اب روز قیامت تک

کوئی بھوکا تو ہو سکتا ہے پیاسا ہو نہیں سکتا

ہمارا تجربہ یہ کہہ رہا ہے اے اسد صاحب

کبھی بھی کوئی سوچا کام پورا ہو نہیں سکتا


اسد ہاشمی

No comments:

Post a Comment