کہ جیسے ایک چنگاری جلائے راکھ ہونے تک
نہیں جھکتی یوں ہی گردن ہماری خاک ہونے تک
ابھی ہوں اس قدر سادہ محبت کر نہیں سکتا
تُو میری سادگی پہ مر مِرے چالاک ہونے تک
نہ جانے رو پڑا وہ کیوں لہو میرا جو ٹپکا تو
ستم جس نے کیے مجھ پر جگر کے چاک ہونے تک
بہا کر لے گئے آنسو تجھے تیرے ٹھکانے سے
بسا تھا تو ان آنکھوں میں مگر نمناک ہونے تک
جو مجھ کو کاٹنے میں ہر گھڑی مصروف تھے ان کو
دیا ہے سائباں میں نے خس و خاشاک ہونے تک
ابھی روشن تو ہیں لیکن اُجالے ہم نہ لے پائے
یہ شمعیں بجھ چکی ہوں گی ہمیں ادراک ہونے تک
دعاؤں میں اثر ہو تو پہنچتی ہیں وہاں فوراً
نہیں لگتا انہیں اک پل پسِ افلاک ہونے تک
تجھے پہنائی ہے بیٹی! تو اِس کی لاج بھی رکھنا
یہ میرے سر کی پگڑی تھی تِری پوشاک ہونے تک
جاوید جدون
No comments:
Post a Comment