چاند تارے مِرے آنگن میں سجانے والے
کھو گیا تو کہاں اے خواب دکھانے والے
کیا یقین آ گیا ان کو بھی وفاؤں پہ مِری
آج خاموش ہیں الزام لگانے والے
چاند چہرے سے نقاب ایسے اتارا نہ کرو
کیا کہیں گے مِرے محبوب زمانے والے
تیری خوشبو تِرے آنے کا پتہ دیتی ہے
چپکے چپکے سے مِرے کوچے سے جانے والے
ظلم ڈھاتا ہے اگر کوئی تو خاموش رہو
خود ہی مٹ جائیں گے اک روز مٹانے والے
بھول جا تو بھی اسے جس نے بھلایا ہے تجھے
کچھ تعلق ہی نہیں ہوتے نبھانے والے
ڈھونڈ سکتے ہو اگر تم تو دکھاؤ مجھ کو
میرے جیسے ہیں کہاں ناز اٹھانے والے
آج ٹوٹے ہوئے اس دل کی صدا کون سنے
آج خود روٹھ گئے مجھ کو منانے والے
میری قسمت میں ہے جلنا مجھے جلنے دے فہیم
کہیں جل جائیں نہ ہاتھ آگ بجھانے والے
محمد فہیم
No comments:
Post a Comment