میں کہتا ہوں جوانی میں عبادت کر
محبت کر، محبت کر، محبت کر
دلیلیں دے نہ اس کی تُو وکالت کر
جو ظالم ہے وہ ظالم ہے مذمت کر
چلا ہے مجھ پہ تیری آنکھ کا جادو
میں جب تک ہوں مِرے دل پر حکومت کر
ہوا! میں نے خدا کی حمد کرنی ہے
ہوا! میرے چراغوں کی حفاظت کر
بتا مجھ کو حقیقت لوٹ آنے کی
بدل پہلو نہ مجھ سے اب سیاست کر
میں چپ ہوں اس کو چپ رہنا نہ پڑ جائے
جو کہتا ہے خموشی کی وضاحت کر
اندھیروں کا نشاں تک یہ مٹا دیں گے
کھلے دل سے اجالوں کی حمایت کر
پڑاؤ ہیں وہاں کوفہ مزاجوں کے
تُو اس کے شہر میں اس سے مِلا مت کر
پڑوسی کو بھی سورج کی سہولت دے
بلند اتنی نہ گھر کی تُو عمارت کر
سخنور تو ستم پر چپ نہیں رہتا
اٹھا کاغذ قلم دانش! بغاوت کر
جاوید دانش
No comments:
Post a Comment