نظر جو آیا کسی کا شباب شیشے میں
لگا کچھ ایسے کہ ہے ماہتاب شیشے میں
مہِ منیر کی رونق بھی ماند پڑنے لگی
جو رخ سے الٹا کسی نے نقاب شیشے میں
حیا کی سرخی ہے چھائی سنہری عارض پر
کہ رکھ دیا ہے کسی نے گلاب شیشے میں
تمہاری مانگ سے پردہ کہیں اٹھا شاید
کہ جھِلملانے لگے ہیں شہاب شیشے میں
کھڑے رہا نہ کرو اس کے سامنے اتنا
کہ آ نہ جائے کوئی انقلاب شیشے میں
سکونِ جاں کے لیے چند حرف لکھ بھیجو
سجا رکھوں گا تمہارا جواب شیشے میں
پیالا مٹی کا لاؤ میں بُو ترابی ہوں
نہ مجھ کو پیش کرو تم شراب شیشے میں
مزہ تو تب ہے کہ مضموں بھی اس کے ہوں دلکش
حسین لگتی ہے یوں تو کتاب شیشے میں
چھلک نہ جائے کہیں میری آنکھ کا پانی
چھپا کے رکھا ہے میں نے چناب شیشے میں
مٹھاس ان کی زباں میں ہے وہ کہ ہر اک کو
اُتار لیتے ہیں عالی جناب شیشے میں
تُو دل کے شیشے کو اشکوں سے صاف کر زاہِد
وگرنہ کچھ نہ ملے گا خراب شیشے میں
زاہد بخاری
No comments:
Post a Comment