Tuesday, 22 February 2022

چلو امید پیہم کے نئے دیپک جلائیں ہم

 🪔چلو امیدِ پیہم کے نئے دیپک جلائیں ہم

بھلا کر نفرتِ رفتہ، دلوں سے دل ملائیں ہم

بڑھے جو دھوپ آنگن میں تو سائبان ہو آنچل

چھلکتی آنکھ کے آنسو کو پلکوں سے اٹھائیں ہم

جو لفظوں کی صداقت سے کسی کا غم غلط کر دیں

وہ ہمدردی بھرے لہجے کہیں سے ڈھونڈ لائیں ہم

کہ جس کی چھاؤں میں بھٹکے مسافر چین پا جائیں

گھنے برگد کے وہ سائے چلو پھر سے لگائیں ہم

یہ کہتے ہیں مسافت سے تھکے ہارے ہوئے پنچھی

غزل اب ڈھل چکا سورج گھروں کو لوٹ جائیں ہم


لبنیٰ غزل

No comments:

Post a Comment