جانے کیا بات ہے ہر بات سے ڈر لگتا ہے
مجھ کو اپنے ہی مفادات سے ڈر لگتا ہے
اس کی ضد ہے؛ مجھے آ کے ملو شام ڈھلے
اور مجھے ایسی ہی ملاقات سے ڈر لگتا ہے
کیوں اشک بہاتے ہو میری قبر پہ آ کے
مجھے بے وقت کی برسات سے ڈر لگتا ہے
خدا کے لیے چندا کہیں چھپ جا تُو بادل میں
تمہیں کہا ناں، چاندنی رات سے ڈر لگتا ہے
آنکھ اب تک کسی دلبر سے ملائی نہیں ساجد
جانے کیوں پیار کی شروعات سے ڈر لگتا ہے
ساجد آہیر
No comments:
Post a Comment