Tuesday, 22 February 2022

دکھ سہنے کا گر اور ستمگر کا ستم اور

 دکھ سہنے کا گر اور ستمگر کا ستم اور

ہم جور پرستوں کے ہیں غم اور ستم اور

کچھ ایسے بھرے بیٹھے ہیں وہ ہم سے ستمگر

تیور ہیں اگر اور،۔ تو انداز ستم اور

ڈھونڈو گے اگر آپ تو ملنے کے نہیں ہم

محفل کے ستم اور، شبِ غم کے ستم اور

انکھوں کا وہ لہجہ بھی قرینہ کی زباں ہے

آے دوست! تِرے دکھ کا زخم اور ستم اور

پہلو کے ہر اک زخم کا کب ہوتا مداوا

تھے کل کے زخم اور نئے غم کے ستم اور

کیا موسمِ گل کی ہو تمنا مِرے دل کو

پت جھڑ کا ستم اور بہاروں کا ستم اور

آ جاؤ کبھی شام کو مرقد پہ تقی کے

چمکے کا زخم اور تو کر لینا ستم اور


تقی حسن

No comments:

Post a Comment