دکھ سہنے کا گر اور ستمگر کا ستم اور
ہم جور پرستوں کے ہیں غم اور ستم اور
کچھ ایسے بھرے بیٹھے ہیں وہ ہم سے ستمگر
تیور ہیں اگر اور،۔ تو انداز ستم اور
ڈھونڈو گے اگر آپ تو ملنے کے نہیں ہم
محفل کے ستم اور، شبِ غم کے ستم اور
انکھوں کا وہ لہجہ بھی قرینہ کی زباں ہے
آے دوست! تِرے دکھ کا زخم اور ستم اور
پہلو کے ہر اک زخم کا کب ہوتا مداوا
تھے کل کے زخم اور نئے غم کے ستم اور
کیا موسمِ گل کی ہو تمنا مِرے دل کو
پت جھڑ کا ستم اور بہاروں کا ستم اور
آ جاؤ کبھی شام کو مرقد پہ تقی کے
چمکے کا زخم اور تو کر لینا ستم اور
تقی حسن
No comments:
Post a Comment