غبارِ راہ کی صورت بکھر گیا کوئی
ابھی تو پاس تھا جانے کدھر گیا کوئی
رفاقتوں کے سبھی واسطوں کو ٹھکرا کے
جفا کی آخری حد سے گزر گیا کوئی
نہ پوچھ مجھ سے مِری ذاتِ گمشدہ کا پتہ
مِرے وجود میں زندہ تھا، مر گیا کوئی
خیال صبحِ بہاراں کا سونپ کر دل کو
خزاں رُتوں سے ہے دامن کو بھر گیا کوئی
رواں ہے وقت کی گاڑی فنا کی راہوں پر
کوئی سوار ہوا اور،۔ اتر گیا کوئی
غزل یہ دامِ محبت فقط ہے ایک سراب
جنوں کی راہ سے لوٹا نہ گھر گیا کوئی
لبنیٰ غزل
No comments:
Post a Comment