لمحوں کی دھوپ نے وہ دکھائی ہیں جھلکیاں
منظر پہ آ گئیں سبھی جیون کی تلخیاں
کیا حال پوچھتے ہو، کبھی جا کے دیکھ لو
صحرا کی خامشی میں کسی کی اداسیاں
اس سال بارشوں کا سفر ہے بہت طویل
کب تک یونہی بناؤں گی کاغذ کی کشتیاں
گھر چھوڑتے ہوئے نہ کسی کو خبر ہوئی
اب لے رہے ہیں کیوں در و دیوار سسکیاں
آنکھوں میں رتجگوں کا عحب اک نشہ سا ہے
چبھتی ہوں جیسے آنکھ میں خوابوں کی کرچیاں
لاؤں تجھے میں سوچ کے محور میں کس طرح
مجھ کو ڈرا رہی ہیں زمانے کی سختیاں
شہر صدا میں ہونٹ ہلانے کا ذکر کیا
جب یوں اجڑ گئی یوں سماعت کی بستیاں
اتنی اداس کیوں ہو بتاؤ ناں کچھ ہمیں
اکثر ہی پوچھتی ہیں یہ اب تو سہیلیاں
لبنیٰ آصف
No comments:
Post a Comment