ہو جاتے ہیں جب آپ بھی حیران دیکھ کر
ہنستا ہوں اپنا چاک گریبان دیکھ کر
پھولوں کا رنگ و روپ نکھرتا چلا گیا
نازک لبوں پہ آپ کے مسکان دیکھ کر
اک بے وفا کا پیار مجھے یاد آ گیا
دورِ خزاں میں باغ کو ویران دیکھ کر
چلتے ہیں جب وہ ناز سے کہتی ہے یوں بہار
اے دلربا! سنبھل کے، مِری جان! دیکھ کر
اہل وفا کو اپنی وفاؤں پہ ناز ہے
جور و ستم پہ ان کو پشیمان دیکھ کر
کچھ تو خدا کے واسطے بتلاؤ کیا ہوا
بے چین ہوں میں تم کو پریشان دیکھ کر
انور! جنابِ شیخ کی نیت بدل گئی
بازار میں شراب کی دوکان دیکھ کر
انور شادانی
No comments:
Post a Comment