آواز کوئی دے گا تو گھر جائیں گے ہم لوگ
اک دن اسی امید مِیں مر جائیں گے ہم لوگ
ہم کو بھی نگل جائے گا شہرت کا سمندر
گمنام جزیروں پہ اتر جائیں گے ہم لوگ
تھم جائے گا ہر ذات کے اثبات کا ہنگام
اک روز خموشی سے بکھر جائیں گے ہم لوگ
کیا پھر نہ رواں ہو گا وہ آواز کا دریا
کیا تشنہ سماعت لیے مر جائیں گے ہم لوگ
اے شخص! تِری چشمِ فسوں ساز سے پہلے
لگتا ہی نہیں تھا کہ سدھر جائیں گے ہم لوگ
ضائع ہی سہی سارا ہنر اپنے لہو کا
لفظوں مِیں نئے رنگ تو بھر جائیں گے ہم لوگ
صدیق اکبر
No comments:
Post a Comment