Friday, 25 February 2022

آئے تری محفل میں تو بے تاب بہت تھے

 آئے تِری محفل میں تو بے تاب بہت تھے

جو اہلِ وفا، واقفِ آداب بہت تھے

اس شہرِ محبت میں عجب کال پڑا ہے

ہم جیسے سبک لوگ بھی نایاب بہت تھے

کچھ دل ہی نہ مانا کہ سبک سر ہوں وگرنہ

آسودگئ جاں کے تو اسباب بہت تھے

مجبور تھے لے آئے کنارے پہ سفینہ

دریا جو ملے ہم کو وہ پایاب بہت تھے

اب دیکھ یہ حسرت بھری اجڑی ہوئی آنکھیں

دنیا تِرے بارے میں مِرے خواب بہت تھے

میں کیوں نہ فراز ان کی طرح مہر بلب تھا

اس بات سے ناخوش مِرے احباب بہت تھے


احمد فراز

No comments:

Post a Comment