کرنا ہے جو تلاش مقدر تلاش کر
صحرا نوردی چھوڑ سمندر تلاش کر
پہلے تو آستین کے خنجر تلاش کر
پھراس کے بعد رہزن و رہبر تلاش کر
ساحل پہ مل سکے گا نہ نادان کچھ تجھے
موتی تلاشنے ہوں تو اندر تلاش کر
کیا مفلسوں کے گھر پہ گراتا ہے بجلیاں
اے آسمان! جا کے بڑا گھر تلاش کر
بوڑھے سروں پہ باندھیۓ دستار کب تلک
میرے عزیز! کوئی نیا سر تلاش کر
بھٹکا رہی ہے کیوں مجھے صحرا و دشت میں
اے چشمِ نامراد! مِرا گھر تلاش کر
اڑتا پھرے ہے کس کا دوپٹا ہواؤں میں
اے چشمِ آرزو! وہی پیکر تلاش کر
بھٹکا رہے ہیں تجھ کو ترے پاؤں بے سبب
منزل کی جستجو ہے تو رہبر تلاش کر
مظہر قریشی
No comments:
Post a Comment