Wednesday, 23 February 2022

ابھی گزرا نہیں ہے وقت توبہ کا ابھی توبہ کی مہلت ہے

 توبہ کی مہلت


کڑکتی بجلیاں ہیں آسماں پر

شور ہے اندھی ہواؤں کا

کہیں اولے برستے ہیں

کہیں بے وقت کی بارش

جہاں دیکھو وہاں تیار ہیں فصلیں

کسانوں کے دلوں میں وسوسے

فریاد ہونٹوں پر

کہیں مزدور ہیں گھر میں مقید

اور کہیں پر

کارخانوں کی دُھویں سے خالی خالی چمنیاں

تصویر کی صورت

کئی دن سے سکوتِ مرگ میں حیران و ششدر ہیں

کہیں تالے لگے ہیں درسگاہوں کو

دکانیں بند ہیں

ویران ہیں دفتر

ذرا باہر نکل کر دیکھئے سنسان راہوں کو

مساجد میں اذانیں ہو رہی ہیں

اور نمازی گھر میں بیٹھے ہیں

کہ رستوں پر لگے ہیں موت کے پہرے

کوئی جا کر کہاں ٹھہرے

اگرچہ موت ہے ایسی

نہیں جس کا نشاں کوئی

کرے کیسے بیاں کوئی

کہ بھڑکائی ہوئی ہے آگ خود ہم نے

غرور و تمکنت، حرص و ہوس اور خود فریبی کی

مگر دریا نہیں سُوکھے

ابھی آنکھوں میں ہیں آنسو

ندامت اور پشیمانی میں لپٹے

جن کے بہتے ہی

ٹلے گی موت سَر سے

لوگ جو سہمے ہوئے ہیں

وہ نکل آئیں گے گھر سے

اس لیے اے بے یقیں لوگو

اٹھاؤ ہاتھ اپنے

بارگاہِ ایزدی میں

بند ہوتا ہے کہاں رحمت کا دروازہ

وہ سُنتا ہے

دلوں کی دھڑکنیں محسوس کرتا ہے

ابھی گزرا نہیں ہے وقت توبہ کا

ابھی توبہ کی مہلت ہے


ظہور چوہان

No comments:

Post a Comment