توبہ کی مہلت
کڑکتی بجلیاں ہیں آسماں پر
شور ہے اندھی ہواؤں کا
کہیں اولے برستے ہیں
کہیں بے وقت کی بارش
جہاں دیکھو وہاں تیار ہیں فصلیں
کسانوں کے دلوں میں وسوسے
فریاد ہونٹوں پر
کہیں مزدور ہیں گھر میں مقید
اور کہیں پر
کارخانوں کی دُھویں سے خالی خالی چمنیاں
تصویر کی صورت
کئی دن سے سکوتِ مرگ میں حیران و ششدر ہیں
کہیں تالے لگے ہیں درسگاہوں کو
دکانیں بند ہیں
ویران ہیں دفتر
ذرا باہر نکل کر دیکھئے سنسان راہوں کو
مساجد میں اذانیں ہو رہی ہیں
اور نمازی گھر میں بیٹھے ہیں
کہ رستوں پر لگے ہیں موت کے پہرے
کوئی جا کر کہاں ٹھہرے
اگرچہ موت ہے ایسی
نہیں جس کا نشاں کوئی
کرے کیسے بیاں کوئی
کہ بھڑکائی ہوئی ہے آگ خود ہم نے
غرور و تمکنت، حرص و ہوس اور خود فریبی کی
مگر دریا نہیں سُوکھے
ابھی آنکھوں میں ہیں آنسو
ندامت اور پشیمانی میں لپٹے
جن کے بہتے ہی
ٹلے گی موت سَر سے
لوگ جو سہمے ہوئے ہیں
وہ نکل آئیں گے گھر سے
اس لیے اے بے یقیں لوگو
اٹھاؤ ہاتھ اپنے
بارگاہِ ایزدی میں
بند ہوتا ہے کہاں رحمت کا دروازہ
وہ سُنتا ہے
دلوں کی دھڑکنیں محسوس کرتا ہے
ابھی گزرا نہیں ہے وقت توبہ کا
ابھی توبہ کی مہلت ہے
ظہور چوہان
No comments:
Post a Comment