ہاتھوں کی لکیروں سے تو سارے نہیں ملتے
ہر شخص سے قسمت کے ستارے نہیں ملتے
رب نام سے تر جاتی ہے ڈوبی ہوئی کشتی
نہ چاہے خدا پھر تو کنارے نہیں ملتے
جو وقت کے دھارے میں گئے بہہ وہ کبھی پھر
دل جان سے پیارے کیوں ہمارے نہیں ملتے
تارے جو چمکتے ہیں فلک پر وہ ٹوٹ کر
گر جائیں تو ٹوٹے ہوئے تارے نہیں ملتے
بچپن سے جوانی نے جو دیکھے تھے وہ منظر
ہیں یاد کا حصہ وہ نظارے نہیں ملتے
حالات تھے اچھے تو مِرے ساتھ تھے سارے
حالات ہیں مشکل تو پکارے نہیں ملتے
ماں باپ کی آنکھوں کے ستارے کبھی تھے ہم
جو پیار سے کہتے تھے دلارے نہیں ملتے
لفظوں کے حمیرا یہ بکھرتے ہوئے موتی
دل میں نہ ہوتا پیار یہ پیارے نہیں ملتے
حمیرا قریشی
No comments:
Post a Comment