Wednesday, 23 February 2022

ہاتھوں کی لکیروں سے تو سارے نہیں ملتے

 ہاتھوں کی لکیروں سے تو سارے نہیں ملتے

ہر شخص سے قسمت کے ستارے نہیں ملتے

رب نام سے تر جاتی ہے ڈوبی ہوئی کشتی

نہ چاہے خدا پھر تو کنارے نہیں ملتے

جو وقت کے دھارے میں گئے بہہ وہ کبھی پھر

دل جان سے پیارے کیوں ہمارے نہیں ملتے

تارے جو چمکتے ہیں فلک پر وہ ٹوٹ کر

گر جائیں تو ٹوٹے ہوئے تارے نہیں ملتے

بچپن سے جوانی نے جو دیکھے تھے وہ منظر

ہیں یاد کا حصہ وہ نظارے نہیں ملتے

حالات تھے اچھے تو مِرے ساتھ تھے سارے

حالات ہیں مشکل تو پکارے نہیں ملتے

ماں باپ کی آنکھوں کے ستارے کبھی تھے ہم

جو پیار سے کہتے تھے دلارے نہیں ملتے

لفظوں کے حمیرا یہ بکھرتے ہوئے موتی

دل میں نہ ہوتا پیار یہ پیارے نہیں ملتے


حمیرا قریشی

No comments:

Post a Comment