تتلیوں کا رنگ ہو یا جھومتے بادل کا رنگ
ہم نے ہر اک رنگ کو جانا تِرے آنچل کا رنگ
تیری آنکھوں کی چمک ہے ستاروں کی ضیاء
رات کا ہے گھُپ اندھیرا یا تِرے کاجل کا رنگ
دھڑکنوں کے تال پر وہ حال اپنے دل کا ہے
جیسے گوری کے تھرکتے پاؤں میں پائل کا رنگ
پھینکنا تم سوچ کر لفظوں کا یہ کڑوا گلال
پھیل جاتا ہے کبھی صدیوں پہ بھی اک پل کا رنگ
آہ، یہ رنگین موسم خون کی برسات کا
چھا رہا ہے عقل پر جذبات کی ہلچل کا رنگ
اب تو شبنم کا ہر اک موتی ہے کنکر کی طرح
ہاں اسی گلشن پہ چھایا تھا کبھی مخمل کا رنگ
پھر رہے ہیں لوگ ہاتھوں میں لیے خنجر کھلے
کوچے کوچے میں اب آتا ہے نظر مقتل کا رنگ
چار جانب جس کی رعنائی کے چرچے ہیں قتیل
قتیل شفائی
No comments:
Post a Comment