مقامِ عاشقی پائے ہوئے ہیں
جو ٹھوکر در بدر کھائے ہوئے ہیں
میں مثال آئینہ جب سے ہوا ہوں
ستمگر سنگ برسائے ہوئے ہیں
تیرے ہی سنگِ در پہ رکھ کر سر کو
مقدر ہم بھی چمکائے ہوئے ہیں
تیرے اصرار پہ محفل میں تیری
سنانے حالِ دل آئے ہوئے ہیں
تمہارے حسن کو دیکھا ہے جب سے
یہ سورج چاند شرمائے ہوئے ہیں
بہاریں روٹھ کر جب سے گئیں ہیں
چمن میں پھول مرجھائے ہوئے ہیں
تصور سے وصال شب کے دیکھو
وہ کس طرح سے شرمائے ہوئے ہیں
تمہاری یا د سے جان اسد ہم
مکانِ دل کو مہکائے ہوئے ہیں
اسد ہاشمی
No comments:
Post a Comment