وقت نے یادوں سے کچھ گرد اڑائی، رکھ دی
آنسوؤں کی مِری پلکوں پہ رہائی رکھ دی
میں نے تو سوچ سمجھ کر ہی خریدی ہر شے
مِرے سامان میں یہ کس نے جدائی رکھ دی
آسمانوں پہ کوئی میرا نہیں تھا، کس نے؟
مِری تقدیر میں یہ آبلہ پائی رکھ دی
مِری تصویر اٹھا کر اسے کچھ آیا خیال
مجھ سے اک بار فقط آنکھ ملائی، رکھ دی
یہ جو تُو سوچ رہا ہے کہ کیا کچھ بھی نہیں
تُو نے ٹھوکر پہ محبت کی کمائی رکھ دی
خط تِرے سارے جلا ڈالے مگر دیکھ مجھے
تِری تصویر کئی بار اٹھائی، رکھ دی
وہ نہیں آئے گا جب کہہ دیا اس نے یہ بتول
کیوں دریچے پہ کوئی شمع جلائی، رکھ دی
فاخرہ بتول
No comments:
Post a Comment