اسم اعظم سے اقتباس عارفانہ کلام حمد نعت منقبت
مجھ کو گہنا گئی میری تیرہ شبی
ناگ وحشت کا ڈسنے لگا ذات کو
جن پہ تھا زعم، سارے وہ گُر زیست کے
علم و عقل و ہنر
بندگی
شاعری، دوستی
سارے بے رنگ ہو کے فنا ہو گئے
چارہ گر جس سے دامن چھڑانے لگے
ایسی بے کار، بے آسرا زندگی
بوجھ ذلت کا دامن سے لپٹا ہوا
دو قدم پہ تھا مایوسیوں کا گڑھا
بسترِ مرگ پر آخری شام تھی
ٹوٹتی شام میں چشمِ بیمار سے
ایک اشکِ ندامت روانہ ہوا
آخری اشک تھا
اس سے پہلے کہ بیمار دم توڑ دے
معجزہ ہو گیا
ایک آہٹ ہوئی
کوئی جھونکا ہوا تھا
یا خوشبو تھی وہ
چاند سا جیسے کوئی تھا روشن ہوا
نام لکھا ہوا تھا وہ دیوار پر
میں نے آنکھیں ملیں
نام ظاہر ہوا
اسمِ اعظم تھا وہ
مصطفیٰ، مجتبیٰﷺ
یعنی جانِ مسیحا
محمدﷺ تھا وہ
دفعتاً میں نے اس نام کو چوم کر
اپنی رِستی ہوئی آنکھ پر رکھ لیا
چشمِ بیمار سے اک جھڑی لگ گئی
اک معطر سی بارش میں دُھلنے لگے
داغِ ذلت، گناہ، ساری مایوسیاں
دستِ رحمت نے ایسا سہارا دیا
زندگی مل گئی
روشنی مل گئی
شکر تیرا خدا
مرحبا مصطفیٰﷺ
مرحبا مصطفیٰﷺ
الطاف بخاری
No comments:
Post a Comment