عارفانہ کلام حمد نعت منقبت
جسم و جاں میں منعکس جلوہ تری تنویر کا
کیا تشکر ہو سکے بندے سے اس تقدیر کا
عبد ممکن کے لیے اے ہستئ واجب تِری
حمد کہنا بالیقیں لانا ہے جُوئے شیر کا
تُو موفّق ہو تو تیری حمد کی تطریز ہو
ورنہ در مغلق رہے تحمید کی تحریر کا
بخشنے والا ہے تُو ہر ایک کی تقصیر کا
اور نعروں کے بھی پاسُخ ہوں گے جاں پرور، مگر
ہے جواب "اللہ اکبر" نعرہ تکبیر کا
رات کی تنہائیوں میں اے انیسِ قلب و جاں
کیا مزہ آتا ہے تیرے نام کی تکریر کا
تیری طاعت ضامنِ فوز و فلاح و عافیت
تیرا ذکرِ پاک باعث، عزت و توقیر کا
تیرے آگے سر خمیدن ، قوتِ قلب و جگر
تابِ روحِ مضمحل جلوہ تری تذکیر کا
جب تبتل سے ترے آگے کوئی سجدہ کرے
خود بخود ہوتا ہے ساماں نفس کی تسخیر کا
تیرے ہی انوار سے ہے پیکرِ گل تابناک
امر سے تیرے ہی نکھرا رنگ اس تصویر کا
ناظمِ بے علم و دانش تیرے لطفِ خاص سے
بن گیا مطواع و ناصر دینِ عالمگیر کا
بشیر حسین ناظم
No comments:
Post a Comment