سفر طویل ہو اور رہ نما خراب نہ ہو
تو منزلوں کا کبھی ذائقہ خراب نہ ہو
ہم اضطراب میں ہیں جنگ کیسے رُک جائے
تمہیں یہ فکر کے بس قاعدہ خراب نہ ہو
ہر ایک رنگ پھر اس دل کو راس آتا ہے
جو دیکھنے کا اگر زاویہ خراب نہ ہو
کوئی بھی نام تِرے بعد ہم نہیں لیتے
گریز کرتے ہیں کے ذائقہ خراب نہ ہو
تمام زندگی گزری ہو چاہے جیسی بھی
یہ پیش و پس ہے کے بس خاتمہ خراب نہ ہو
یہ سوچ کر کے کبھی جُھوٹ بول لیتے ہیں
ہر ایک شخص سے اب رابطہ خراب نہ ہو
عجیب شخص ہے عرفان ہم سے چاہتا ہے
کے پیڑ کاٹ دیں اور گھونسلا خراب نہ ہو
سیف عرفان
No comments:
Post a Comment